١.سوال :-اگر لڑکا لڑکی زنا کی حد تک پہنچ جائے اور گواہ وہاں پر موجود نہ ہوں تو کیا لڑکا لڑکی کا آپس میں قبول کرنے سے نکاح ہو جاےگا

الجواب وبالله التوفيق:
دو گواہوں کی موجودگی کے بغیر ان دونوں کا آپس میں نکاح قطعاً درست نہیں ہوگا چاہے زنا میں مبتلا ہونے کا اندیشہ کیوں نہ ہو۔

قال ومن كان له نصاب فاستفاد في اثناء الحول من جنسي ضمه اليه وذكرة به وقال الشافعي: لا يضم لانه اصل في حق المالك..(هدايه: ٢٠٩/٢, كتاب الزكاة زمزم بوك ديوبند)

عن عمران بن حصين، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا نكاح إلا بولي، وشاهدي عدل. (المعجم الكبير للطبراني، ١٤٢/١٨، رقم الحديث: ٢٩٩، ط: دار إحياء التراث العربي)

حضرت مفتی صاحب سوال یہ ہے کہ کھیت بٹائی (بٹیہ) پر دینا (لینا)کیسا ہے اس طرح سے کہ کھیت زید کا ہے اور بکر اس میں فصل اگاتا ہے اور محنت کھاد پانی کھیتی کے جتنے خرچے ہیں سب بکر برداشت کرتا ہے ۔ اور زید کا کچھ خرچ نہیں ہوتا نہ ہی کھاد پانی کا خرچ اس کے طرف سے ہوتا ہے اور نہ ہی کسی طرح کی محنت کرتا ہے کھیت کے لیے، بلکہ کبھی کھیت دیکھنے بھی نہیں جاتا ۔ لیکن اناج اور گلے کی تقسیم دونوں میں برابر ہوتاہے۔ تو کیا زید کے لیے کھیت سے آئے ہوئے اناج کا لینا درست ہے یا یہ پھر سود ہے

الجواب بعون الملک الوھاب

کھیت بٹایٔ پر دینا بایں طور کہ بیج اور عمل ایک شخص کا ہو اور زمین دوسرے شخص کی ہو تو یہ طریقہ شرعاً جائز و درست ہے، سود نہیں ہے، اور مذکورہ شخص کیلئے وہ غلّہ لینا بھی درست ہے،
واضح رہے کہ اس کے اندر نفع ہمیشہ تناسب سے ہوگا، فقط _ واللّه أعلم بالصواب

إن كان الارض لواحد و العمل و البقر و البذر لواحد جازت. (ھدایہ ٤٢٧/٤)_(الدرالمختار مع رد المحتار ٤٠١/٩)

(دفع ) رجل ( أرضه إلى آخر على أن يزرعها بنفسه وبقره والبذر بينهما نصفان والخارج بينهما كذلك فعملا على هذا فالمزارعة فاسدة، ويكون الخارج بينهما نصفين، وليس للعامل على رب الأرض أجر )؛ لشركته فيه (و ) العامل ( يجب عليه أجر نصف الأرض لصاحبها )؛ لفساد العقد ( وكذا لو كان البذر ثلثاه من أحدهما وثلثه من الآخر والرابع بينهما ) أو ( على قدر بذرهما ) نصفين فهو فاسد أيضاً؛ لاشتراطه الإعارة في المزارعة.(فتاویٰ شامی ٢٨٦/٦)

1 thought on “١.سوال :-اگر لڑکا لڑکی زنا کی حد تک پہنچ جائے اور گواہ وہاں پر موجود نہ ہوں تو کیا لڑکا لڑکی کا آپس میں قبول کرنے سے نکاح ہو جاےگا”

Leave a Comment